وراثتداؤد کے افسانےافسانہ اول
---
یہ بارش کے بعد کا منظر تھا۔ اسلام آباد شہر کے اس علاقے میں دنیا ہی بدل سی گئی تھی۔ یہ سہانا موسم ہر کسی کا دل للچا رہا تھا اور آج تو اتفاق سے یہ ساری فیملی بھی گھر پر ہی موجود تھی۔ اسی سب میں بسمہ کو وہ نوجوان آتا دکھائی دیا۔ بچھلی بار کی طرح اس بار بھی بسمہ کی سانسیں اسے دیکھ کر کر تھم سی گئیں تھی۔ اس میں کچھ تو کشش تھی۔ جو مسلسل بسمہ کی توجہ کا مرکز بن جاتا۔ بسمہ کو تو اس کا نام بھی نہیں پتہ تھا۔ وہ بس کرائے دار تھا۔ جو دو ہفتے پہلے ہی تو آیا ہے۔
یہ مقامی ٹاؤن کی اچھی خاصی کھلی گلی تھی۔جس پر سبھی دیکھا دیکھی بارش کے بعد کا نظارہ لینے گھروں سے نکل آئے تھے۔ وہ بھی وہیں تھی۔۔۔بسمہ۔ پریوں سے دال والی لڑکی۔۔ایک کلی جسے چاند نے جلا بخشی تھی۔ وہ بچوں کے ساتھ گھر سے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ وہ سبھی اس کے کزنز تھے۔ سبھی چھوٹے تھے لیکن وہی تھے اس کی زندگی کا اہم حصہ۔
ایک ہاتھ سے پیٹھ پر بیگ لٹکائے اور دوسرے ہاتھ میں دو کتابیں پکڑے وہ پرکشش لڑکا گلی کے بیچوں بیچ نمودار ہوا تھا۔ وہ سبھی کے سامنے سے گزرتا ہوا اس مکان میں داخل ہو گیا، جو اس نے کرائے پر بسمہ کے والد سے لیا تھا۔ وہ دروازہ ابھی بند نہیں ہوا تھا۔ بسمہ کی نظریں اس کھلے دروازے پر ٹکی رہیں ہمیشہ کی طرح جب تک دروازہ بند نہیں ہو جاتا لیکن آج وہ دروازہ بند نہیں ہوا۔ نوجوان ایک ڈبہ لے کر باہر سیڑھیوں پر آ بیٹھا۔ شاید اسے بھی یہ نظارہ اچھا لگا تھا۔
وہ ایک نہایت سنجیدہ مزاج لگتا تھا۔ جسے جلد ہی محلے والے کوئی شریف زادہ سمجھنے لگے تھے۔ اس نے ان میں سے کسی سے ابھی تک بات نہیں کی تھی۔ نا چہرے پر مسکراہٹ، نا کسی کی طرف توجہ لیکن انداز سے کوئی ویل مینرڈ انسان جو ہر کام کر سکتا ہو۔ شام سے صبح تک پورے مکان کی لائٹس چلتی رہتیں۔ بس رات بارہ ایک بجے دوسری منزل کے ایک طرف کے کمرے کی لائس آف ہو جاتیں۔ اس کے مزاج کا بھی نہیں علم نہیں تھا۔ نہ زیادہ نظر آتا تھا۔ یہ اونچا شریر شام کے کسی پہر بیگ پیٹھ پر لٹکائے آتا اور صبح دس بجے کی قریب پھر سے چلا جاتا۔ جب سے آیا تھا۔ اس کا مسلسل یہی روٹین رہا تھا لیکن جب بھی آتا گلی والے رک رک کر دیکھتے اور وہ جیسے انھیں دیکھتا بھی نہیں تھا۔
وہ ڈبہ کھول کر اس نے ایک برگر برگر نکالا اور کھانے لگا۔ بسمہ مسکرائی اور اسے ہی دیکھنے لگی۔ بسمہ کو اچھا لگا تھا کہ اسے بھی یہ نظارہ پسند آیا۔
بسمہ کے ساتھ بیٹھی ایک بچی اٹھی اور گلی پار کر کے اس نوجوان کے سامنے کھڑی ہو کر قریب جا کر اسے مسلسل دیکھنے لگی۔ بسمہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ چند ہی لمحوں میں سامنے اس بچی کی موجودگی محسوس کر کے وہ نوجوان اس کے طرف متوجہ ہوا۔
" کیا آپکے موبائل میں گیمز ہیں؟؟؟ " ہاتھوں کی انگلیوں کی آپس میں گتھم گتھا کیے اس چھوٹی بچی نے زبان دبا کر پوچھا تھا۔
وہ نوجوان کچھ پل تو اسے دیکھتا رہا۔ وہ پہلی تھی جس نے اس سے بات کی تھی اس مکان مالک کے بعد۔
"نہیں۔۔۔" وہ چہرے کی ہی طرح سخت مزاجی سے بولا تھا لیکن پھر ذرا مزاج کو تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ بولا۔
"میرے پاس موبائل نہیں ہے۔۔" اب وہ اس بچی سے نہایت نرمی سے قریب ہوتے ہوئے بولا۔
" لیکن میرے پاس یہ ہے۔۔۔کھاؤ گی" اس نوجوان نے آدھا کھایا ہوا برگر اس بچی کی طرف بڑھایا۔
"نہیں۔!! میں یہ تو نہیں کھاتی ہوں۔۔۔دانت خراب ہو جاتے ہیں" اس بچی نے دونوں ہاتھوں کو اپنی فراق کے پیچھے سے جکڑے ہوئے تھے۔
اتنے میں گلی میں آتا ہوا ایک چھوٹا لوڈر ٹرک اس گلی کے اکلوتے گڑھے میں اٹک چکا تھا۔ یہ گڑھا جتنا اکلوتا تھا اتنا ہی خطرناک بھی تھا۔ مطلب کہ اس میں بارش کا پانی بھرا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے واضع بھی نہیں ہو رہا تھا۔ دو تین چالیس پینتالیس سالہ مرد آگے بڑھ کر دھکا لگانے لگے تھے لیکن انھیں دو اور ہاتھوں کی ضرورت تھی۔
" ارے نزیر صاحب آئیے تو زرا " بسمہ کے والد نے ایک شخص کو آواز دی۔ جو خود پانی سے بچتے ہوئے دوسری طرف کھڑا تھا۔
"انھیں کیوں بلاتے ہو ماجد میاں۔۔۔کمر درد کے مارے ہیں وہ پہلے سے ہی۔۔!۔" ساتھی ہمزور نے بسمہ کے والد سے کہا اور ایک پل کے لیے نظر اس نوجوان کی طرف بڑھا کر واپس ماجد صاحب پر اٹکا لیں اور بسمہ کی نظریں مسلسل اسی پر ٹکی ہوئیں تھیں۔
اس نوجوان کا دھیان اس بچی سے ہٹ کر اب انھی پر تھا۔ اس نے آدھا کھایا ہوا برگر ڈبہ میں رکھا اور اٹھ کر ان کی طرف بڑھا۔ انھوں نے بھی اسے آتا دیکھ کر بغیر کچھ بولے گاڑی کو جکڑا اور یہ بھی ساتھ دھکا لگانے لگا۔ ٹرک کو ایک طرف سے جکڑ کر دھکا لگایا اور اگلے ہی جھٹکے میں انھوں نے ٹرک کا پہیہ گڑھے سے نکال باہر کیا لیکن اگلے ایک چھوٹے سے گڑھے میں سے گندا پانی اچھال کر اس نوجوان کی شرٹ پر پڑا۔ ساری شرٹ گندی ہر چکی تھی۔ بسمہ سمیت سبھی چونک گئے تھے۔
"ارے ارے ارے۔۔بدبخت یہ کر کر گیا"
"او ہو یہ کیا کر دیا۔۔۔بےوقوف دھیان سے چلایا کر۔۔" بسمہ کے والد اور ایک ساتھی اس گاڑی والے پر چلایا جو کہ جا ہی چکا تھا۔
وہ نوجوان شرٹ کو پونچھتے ہوئے اب واپس اپنے مکان کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ تو بسمہ کے والد نے اسے روکنا چاہا۔ وہ شاید شرمندہ ہی ہوئے تھے۔
"ارے بیٹا۔۔سو سوری آپکی شرٹ گندی ہو گئی۔۔آپ یہ شرٹ ادھر دے دو۔۔دھلوا دیتا ہوں آپ کو۔۔" بسمہ کے والد کو کچھ اور نہ سوجھا تھا۔ انھوں نے پھر بسمہ کو اشارے سے پاس آنے کا کہا، جو ادھر ہی دروازے میں بیٹھی یہ سب ابھی دیکھ رہی تھی، تیزی سے اب اپنے ابا، ماجد میاں کی طرف بڑھنے لگی۔
اس نوجوان کو کپڑے دھونا شاید پسند نا تھا یا ہو سکتا تھا کہ کوئی کام تھا۔ اس نے دو پل سنا اور تیسرے ہی پل اپنا شرٹ اتار کر ماجد میاں کی طرف بڑھا دی۔ نیچے بنیاں پہنی تھی۔ بسمہ کی رفتار فوراً کم ہو کر رک گئی۔ اس نوجوان نے گلی میں اوروں کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر باکی دکھائی۔ ماجد میاں نے بھی ذرا حیرانی سے دیکھا اور شرٹ پکڑ لی۔
اور پھر وہ نوجوان واپس اپنے مکان کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے چلے جانے بعد محلے والے بھی حیران و کساں ہوئے جانے لگے اور بسمہ ماجد میاں کے قریب آ رکی۔
"جی بابا۔۔"
ماجد میاں اس نوجوان کو اس مکان کا دروازے بند ہونے تک دیکھتے رہے کہ ان کی زمانے میں تو یہ سب نہیں ہوتا تھا خیر نئی بےفکر جنریشن کا انداز سمجھ کر پلٹے۔ آخر وہ بھی تو زمانے کے ساتھ چلنے والے آدمی بن رہے تھے۔
"آاا۔۔بیٹا یہ اپنی ماں سے کہو دھو دیں۔ میں بازار سے کچھ سامان لے آتا ہوں" ماجد میاں پیدل ٹاؤن کے مین گیٹ کی طرف چلنے لگے۔
"جی ابا۔۔۔ابا گاڑی میں نہیں جائیں گے آپ۔۔!!؟" بسمہ نے پیدل جاتے دیکھ پوچھا۔
"نہیں بیٹا۔۔۔اتنی دیر بعد فارغ وقت ملا ہے آج کچھ گھوم پھر کر آؤں گا" ماجد میاں بازار پیدل جانے لگے۔
بسمہ جلدی سے گھر گئی اور فوراً شرٹ مشین میں ڈال کر بےتحاشا صرف ڈال دیا۔ خیر جیسے تیسے بھی شرٹ دھو کر سوکھنے ڈال چکی تھی اور اب وہ شیشے کے سامنے کھڑی ایک انداز منتخب کرنے لگی۔ جو وہ شرٹ لوٹانے جاتے وقت اپنائے گی۔
اس نے طے کیا کہ
"میں پہلے تو جا کر دروازہ کھٹکھٹاؤں گی۔ وہ دروازہ کھولے گا میں شرٹ دوں گی وہ شکریہ کہے گا میں کہوں گی کوئی بات نہیں یہ تو میرا فرض تھا۔۔۔!؟؟؟۔۔ ہیں۔۔نہیں نہیں نہیں۔۔۔ دیکھو میں جاؤں گی، دروازہ کھٹکھٹاؤں گی، وہ دروازہ کھولے گا۔ پوچھے گا جی کیا کام ہے میں کہوں گی یہ آپکے شرٹ لائی تھی اور۔۔۔ اور وہ شرٹ لے لے گا۔۔۔۔ ہیں؟! لے لے گا۔۔؟؟ بس۔؟؟ تو بات کہاں سے کروں گی یار۔۔؟؟ ارے لیکن میں کیوں بات کروں گی میں تو لڑکی ہوں ناں۔۔ بات تو اسے کرنی چاہیے۔۔۔ ارے نہیں یار پسند بھی تو مجھے ہے نا وہ..!! پر میں کیوں وہ آئے۔۔نہیں نا میں۔۔۔میں۔۔ممم۔۔آییییی"
خیر اس سے ہمارے سمجھنے لائق تو یہی پتہ چلا کہ وہ اس نوجوان کو کافی زیادہ پسند کرتی تھی۔ باقی وہ خود سے کیا کہہ رہی تھی اس کا علم شاید کچھ کو ہی ہوا ہو گا لیکن بسمہ کو اب یہ جاننا تھا کہ کیا صرف وہی اسے پسند کرتی ہے یا وہ بھی اسے پسند کرے گا۔
"تو ٹھیک ہے جب میں اسے شرٹ دینے جاؤں گی۔۔ تب کی تب دیکھیں گے"
بسمہ نے جلد از جلد شرٹ دھوئی اور فلانا ڈھمکانا سب کر کے دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ نہیں۔ اصل میں وہ دروازہ کھٹکھٹانے والی تھی لیکن دروازہ کھلا اور بسمہ دنگ۔
"شرٹ " اگلے ہی لمحے بسمہ بولی تھی۔
وہ باہر نکلنے والا ہی تھا اچانک آواز سے چونکا تو سامنے فراق میں ملبوس ایک حور جیسی کو دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹ گیا۔
نہیں!! وہ ایسا نہیں کرتا تھا۔ نہیں مطلب پیچھے ہٹنا نہیں۔ وہ کسی کو دیکھ کر چونکتا نہیں تھا۔ تو چونکنے کے بعد کا تو کیا ہی۔
"جی؟؟۔۔جی.!!" اور شرٹ پکڑ ایک کرسی پر رکھ دی۔
"شکریہ!" بس اتنا بولا گیا اس سے۔
"یہ تو فرض تھا ممم۔۔۔جی" وہ کچھ رٹا سا بولنے لگی تھی۔ نہیں۔ یہ تو نہیں بولنا تھا اس نے۔ اس کی بس زبان پر قابو نہیں رہا تھا۔ پھر وہ چپ ہو گئی۔
وہ اگلے دن کہیں اسے آ رہا تھا۔ وہی پرانا انداز بیگ پیٹھ پر لٹکائے اور ہاتھ میں چند کتابیں۔ جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔
وہ گلی کے ایک کونے سے نمودار ہوا۔ بہت جلد اس کی نظر اس ہجوم پر پڑی جو اسی کے مکان کے سامنے لگی ہوئی تھی۔ وہ بس بڑھتا رہا۔ محلے کے مرد حضرات ایک گاڑی کے اردگرد کھڑے تھے۔ عورتیں بھی جیسے کسی حیرت میں لپٹی اپنے گھروں کی بالکونیوں میں آ گئی تھیں۔ کیوں۔ کیسے؟ یہ اللہ ہی جانے کیسا ان کا ایک دوسرے تک پیغام پہچانے کا نظام تھا۔
وہ جب ان کے قریب پہنچا۔ وہ سب راستہ بنانے کے لیے ہٹنے لگے۔
"جی جی۔۔ یہی ہے وہ " ماجد میاں بولے۔
"جی! " یہ کہہ کر ایک پچاس پچپن سالہ بوڑھے شخص اپنی ٹوپی پکڑے شرمندہ سا چہرہ بنائے اس ہجوم سے نکل کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ کوئی ڈرائیور تھا۔ اس نوجوان کے چہرے پر پلوں میں غصہ چھا گیا۔ یہ پہلا تاثر تھا جو محلہ داروں نے اس کے چہرے پر دیکھا تھا۔ اس نے بیگ پر اپنی گرفت سخت کر دی اور پلٹ کر تیزی سے مکان کی طرف چلنے لگا۔
"چھوٹے مالک!!" کہتا ہوا وہ ڈرائیور بھی اس کے پیچھے چلنے لگا۔
"وہیں رک جاؤ۔۔بشیر۔" وہ بغیر پلٹے اسے یہ کہہ کر چلا گیا۔
"بڑے مالک یاد کرتے ہیں آپکو۔۔۔" وہ ڈرائیور بولا۔ نوجوان ایک پل کے لیے گھر کے سامنے رکا اور پھر مکان کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اس نے دروازہ بند نہیں کیا۔۔شاید وہ چاہتا تھا کہ ڈرائیور اندر آ جائے لیکن کچھ بولا نہیں۔
"مالک میرے ساتھ چلیے۔۔۔حویلی ویران لگنے لگی ہے آپکے اور چھوٹی مالکن کے بنا۔"
"کچھ نہیں رکھا ہوا وہاں۔۔۔چلے جاؤ اور واپس کبھی بھی مت آنا۔۔"وہ یہ کہتے ہوئے کچھ بکھرا سامان سمیٹنے لگا۔
"لائیے میں رکھ دیتا ہوں" وہ ڈرائیور آگے بڑھ کر سامان پکڑنے لگا تھا۔
"رک جاؤ۔۔بس۔۔۔اب میں اپنے کام خود کر لیتا ہوں" وہ قدرے سخت لہجے میں بولا۔ وہ ڈرائیور ڈرا پیچے ہٹا اور شاید جانے ہی لگا تھا۔
"عائزہ کیسی ہے؟"اس نے سامان کہیں رکھ کر دوسری طرف منہ کیے بولا۔ شاید اسی سوال کا جواب پانے کے لیے ہی اس نے ڈرائیور کو اندر آنے دیا تھا لیکن وہ پلٹتا نہیں تھا۔ شاید عادت نہیں تھی۔
"چھوٹی مالکن بہت خوش ہیں۔۔۔ہفتہ میں ایک دو دفعہ اس طرف آ جایا کرتی ہیں۔ " وہ ڈرائیور چمکتی آنکھوں سے جھوٹ بول گیا۔
"جھوٹ۔۔" وہ ابھی بھی پلٹا نہیں تھا۔
"پرسوں آئیں تھی دوسری مرتبہ " ڈرائیور آنکھیں جھکا کر بولا۔ وہ ایک اور جھوٹ بول چکا تھا۔
"جھوٹ" نوجوان پھر سے بولا۔ ڈرائیور کی دھڑکنیں بڑھنے لگیں تھیں۔ ڈرائیور مزید کچھ نہیں بولا۔
"اور منیب؟؟ "
"بڑے مالک نے انھیں کینیڈا بھیج دیا تھا"
"اور وہ چلا گیا؟؟" وہ چونکا نہیں۔ وہ اب چونکتا بھی نہیں تھا۔
"جب انھیں چھوٹی مالکن کی شادی کا علم ہوا۔۔"
"کیسے؟؟..بتاؤ!! " وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔
" منیب بیٹا راضی نہیں تھا۔۔۔لیکن بڑے سرکار نے ذبردستی بھیج دیا۔۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ چھوٹی مالکن کی زندگی میں وہ دخل دے پائے۔۔مصیبت ہو جاتی۔۔۔عاصم سرکار کو منیب اور چھوٹی مالکن کا پتہ چلتا تو مشکل ہو جاتی۔۔۔ کہ ان کی بیوی ان کے علاوہ کسی اور کو چاہتی تھی۔۔۔تو بڑے مالک نے اسے کینیڈا بھجوا دیا۔۔۔"
"تم چھوڑ کر آئے تھے اسے؟؟ " نوجوان نے پوچھا۔
"نہیں چھوٹے مالک"
"اس سے بات ہوئی"
"نہیں چھوٹے مالک" ڈرائیور کے اس جواب پر وہ جان گیا کہ منیب کو کنیڈا نہیں بھیجا گیا۔ اسے مار دیا گیا تھا۔ ڈرائیور کو شاید علم نہیں تھا کہ منیب کو مارا گیا ہے۔ نوجوان نے مٹھی کستے ہوئے پوچھا۔
"اور تم؟؟" اس نے بےباکی سے پوچھا۔
"جی مالک؟؟"
"تم شادی میں تھے؟؟" اس نے دوبارہ پوچھا۔
"میں لیاقت نگر سے بڑے مالک کے دوست لینے گیا تھا۔۔۔ " ڈرائیور نے ٹوپی پر گرفت مضبوط کر لی۔
"ان کے وہاں کوئی دوست نہیں ہیں۔۔۔بے وقوف۔۔۔" وہ چلایا۔ "وہ تمھیں بھی دور رکھنا چاہتے تھے شادی سے۔۔کیا تمھیں اتنی سی بات کا علم نہ ہو پایا۔۔" وہ سرخ آنکھیں کیے پلٹا اور ڈرائیور کے چہرے کے برابر چہرے لائے اسے دیکھنے لگا۔ جیسے کوئی لحاظ توڑا تھا۔ ڈرائیور نے آنکھیں تک نہ اٹھائیں تھیں۔
"ایسا نہیں ہے چھوٹے مالک۔۔۔بڑے مالک اکیلے ہو گئے ہیں۔۔۔" بوڑھے ڈرائیور کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔
"وہ کبھی اکیلے نہیں پڑیں گے۔۔۔ان کی دولت ہے ان کے پاس۔۔۔۔آہ۔۔۔ان کی دولت"
"وہ ٹوٹ چکے ہیں!! اب کہیں نہیں جاتے۔۔"
"وہ کبھی نہیں ٹوٹتے۔۔۔وہ نرم تک نہیں پڑتے" وہ پھر سے چلایا۔
"جو نرم نہیں پڑتا وہی تو جلدی ٹوٹتا ہے نا چھوٹے مالک۔۔یہ تو کتابوں میں بھی لکھا ہے"
"وہ کچھ نئی مصروفیت ڈھونڈ لیں گے۔۔۔بہت دولت ہے نا ان کے پاس "
"وہ اب کچھ نہیں کر پائیں گے۔۔۔ان کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔۔۔چھوٹی مالکن کی شادی سے ایک ماہ بعد۔۔۔وہ تین ماہ سے کرسی پر پڑے ہیں۔۔معذور ہو گئے ہیں۔۔۔" وہ ڈرائیور ذرا اونچی آواز سے بولا تھا لیکن یہ سن کر وہ نوجوان ذرا مدھم پڑ گیا۔۔۔لیکن پھر وہ سامنے سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔
"چھوٹے مالک رکیے۔۔آپکو واپس آنا ہوگا۔۔چھوٹی مالکن نے انھیں معاف کر دیا ہے۔۔آپکو کرنا بھی ہو گا۔۔۔اگر آپ نہیں آتے ہیں تو اگلے ہفتے عاصم سرکار کو آپکے ابا کی کمپنی کا مالک بنا دیا جائے گا۔۔۔عآسم سرکار آپکو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں دیں گے پھر۔۔۔چھوٹی مالکن نے بھی وراثت لینے سے انکار کر دیا ہے۔۔۔" ڈرائیور نے اسے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے روکا۔۔وہ سمجھ گیا کی عائزہ نے بھی صرف باپ کو معذور دیکھ کر معاف کیا ہے۔۔۔لیکن وراثت لینے سے انکار کیا ہے یعنی وہ اپنے باپ کی ذیادتی کو ابھی دل سے معاف نہیں کر پائی تھی۔
"تو کس خبیث کو ان کی وراثت چاہیے۔۔اسی ناجائز کو دے۔۔اچھا خیال رکھ لے گا ان کا۔۔۔اگر کبھی شکل بھی دکھانے آیا تو۔۔۔ " اس نے ڈرائیور کی بات کو ٹوک کر کہا۔ وہ غصے میں تپنے لگا تھا۔
"انھوں نے آپ دونوں کے ساتھ چاہے جو بھی کیا۔۔۔اب آپ تو اولاد ہونے کا فرض نبھا سکتے ہیں۔۔۔انھیں آپ دونوں کی سچ میں بہت پرواہ ہے۔۔ "
"وہم ہے تمھارا۔۔۔ "
"وہم مجھے نہیں آپکو ہوا پڑا ہے۔۔ " ڈرائیور ذرا جذباتی ہوا لیکن نوجوان نے غصے سے دیکھا تو وہ دوبارہ نظریں جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
"اسی لیے اکلوتی بیٹی کی پسند کے خلاف شادی کی؟؟۔۔۔ایک اکلوتی شے جو اس نے اپنے باپ کی بجائے مجھ سے مانگی تھی میں اسے وہ بھی نہیں دے پایا۔۔۔اس شخص نے مجھے بار بار یاد دلایا ہے کہ میں کس قدر ناکارہ ہوں۔۔۔منیب ان کو پسند نہیں آیا کیونکہ وہ ان سے غریب تھا؟؟؟.۔۔بس؟؟؟ پوچھ لیتے عائزہ سے ہم کیسے کیسے منتیں نہیں ان کے سامنے۔۔کیا یہی تھی اولاد کی خوشی ان کے لیے۔۔۔حویلی نے چاہے مجھے ہر خوشی دی ہو۔۔لیکن وہ نہیں دیا جو میرے لیے میٹر کرتا تھا۔۔۔اس حویلی نے مجھے وہ نہیں دیا جو میری بہن نے مجھ سے مانگا تھا۔۔۔اس حویلی کو اب کھنڈر ہو جانا چاہیے۔۔۔ "
"ایسا مت کہیے مالک۔۔۔ایک وراثت ہی ہے جس نے انسان کو اپنے اوپر اختیار دیا ہے۔۔۔مالک گڑھ کے ملکوں کے وراثت آپکے بعد اب ختم ہو جائے گی۔۔۔آگر آپ یہی چاہتے ہیں تو میں دوبارہ نہیں آؤں گا۔۔۔" وہ ڈرائیور روتے ہوئے جانے لگا تھا۔
"آپکو اب واپس گاؤں چلے جانا چاہیے ماموں" اس نوجوان نے پیچھے سے آواز دی تو وہ ڈرائیور تھم گیا۔ ڈرائیور پلٹا۔ اس نوجوان کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ ڈرائیور نے دوبارہ ٹوپی اتار کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لی۔ نوجوان دوبارہ بولا۔" کیا آپکو نانی ماں کی یاد نہیں آتی۔۔۔تڑپتی ہیں وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے۔۔بیٹی تو خیر۔۔" اس سے آگے بولا نہیں گیا۔
"میری بھی بہن نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ تمھارے باپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں" ڈرائیور نے خود کو مضبوط دکھاتے ہوئے کہا۔
"وہ مر چکی ہیں۔۔۔سالوں پہلے۔۔۔!!۔۔۔کسی گھٹیا سے ایکسیڈینٹ میں۔۔۔اور آپکے۔۔بڑے مالک۔۔۔ان کے جنازے میں بھی نہیں کیوںکہ انھیں کسی گھٹیا سی میٹنگ میں جانا تھا اس گھٹیا سی وراثت کے لیے۔۔؟؟۔ " نوجوان طیش میں آ چکا تھا۔ وہ چلا چلا کر بول رہا تھا۔
"اس وراثت نے سبھی سے کچھ نہ کچھ چھینا ہے۔۔۔آپ نہیں جانتے اس وقت کو جب اس وراثت نے آپکے بابا سے سب کچھ چھینا تھا۔۔۔انھوں نے خود کو نیلام کیا۔۔۔خود کو توڑ دیا اس وراثت کس بنانے کے لیے۔۔۔۔لیکن وہ کبھی پوری طرح جڑ نہیں پائے یہ میں جانتا ہوں"
"اسی لیے یہ رواج میں توڑوں گا۔۔بھاڑ میں جائے یہ وراثت۔۔اور بھاڑ میں جائے وہ شخص جس نے اسے بنایا۔۔" اس کا لہجہ تلخ تا تلخ ترین ہوا جا رہا تھا۔" آپ جائیے۔۔اور کوشش کیجیے یہ وراثت بھی کہیں نیلام ہو جائے۔۔اور واپس مجھے مت ڈھونڈیے گا۔۔میں کہیں اور چلا جاؤں گا اب "
ڈرائیور کا خود پر قابو ٹوٹ گیا۔ وہ گھٹنوں کے بل گر کر پھر سے رونے لگا۔ لیکن وہ نوجوان سیڑھیاں چڑھتا گیا اور ایک کمرے میں داخل ہو گیا۔ کچھ پلوں میں ڈرائیور اٹھا اور آنسو پوچھ کر چہرہ سدھارا اور ٹوپی پہن کر باہر نکلا۔۔۔محلے والے ابھی بھی باہر تھے۔ انھیں شاید ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں یا نہیں۔۔ پتہ نہیں۔ وہ گھر چھوٹا سا تو تھا شاید سنائی دے گئی ہونگیں۔
ماجد میاں حیرت میں ڈوبے اس ڈرائیور کو آتا دیکھ رہے تھے۔ ساتھ میں باقی محلے والے بھی کھڑے تھے۔ ڈرائیور ماجد میاں کے قریب آ رکھا اور جیب میں سے نوٹوں کی ایک گتھی نکال کر ماجد میاں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"جب یہ یہاں سے جانے لگیں تو اس نمبر اطلاع کیجیے گا۔۔۔اور کوشش کیجیے گا کہ پتہ کر پائیں کہاں جانے والے ہیں وہ " ماجد میاں کا منہ کھلا ہوا تھا۔ حیرت سے ایک ہاتھ پیسے پکڑ لیے۔ لیکن اس وقت ان کے دماغ اور بہت کچھ چل رہا تھا۔ انھیں شاید علم ہی نہیں تھا کہ وہ پیسے پکڑ رہے ہیں۔ وہ ڈرائیور کار میں بیٹھا اور چلا گیا لیکن یہ سب اس نوجوان نے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ لیا تھا۔
پتہ نہیں یہ کیا تھا۔ کیسا غرور تھا یا ڈر۔۔یا کوئی محبت۔۔۔یہ کوئی تھا جسے اس خوف نے توڑ دیا کہ وہ اپنی بہن کو اس کی خوشی نہیں دی پایا تھا۔ شاید اس کی بہن نے اس سے اپنی محبت مانگی تھی اور شاید یہ دے نہیں پایا۔۔۔شاید اسے غرور تھا اپنی دولت کا۔۔۔یا شاید اس وراثت نے اس کا غرور ہی نہیں اسے بھی توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اب کہیں اور چلا جائے گا اور خود کو سیے گا لیکن یہ حقیقت تھی کہ اس وراثت نے اس کے وجود تک کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔
بقلم داؤد ابراہیم۔
---
تو یہ تھی ایک کوشش ایک الگ کام کرنے کی۔ پتہ نہیں کیسا لکھا ہے لیکن رویو ضرور دیجیے گا۔ اگر اچھا رویو ملے گا تو ہی ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ آپکو پسند آیا ہے ہمارا لکھا۔ اچھے رسپانس پر ایسے ہی کچھ مزید داؤد ابراہیم کے افسانے اس ویب سائٹ پر پوسٹ کیے جائیں گے۔ یاد رہے تو اچھا ریسپانس ہی کسی رائیٹر کو مزید لکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔تو ذرا سی
مشقت کر کے ہمیں کمنٹ کریں اپنا رویو۔۔۔ 😌😌🤗